مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مجمع التقریب بین المذاہب کےسکریٹری جنرل آیت اللہ ڈاکٹرحمیدشہریاری اورایران کی مجلس خبرگان کےاہلسنت رکن مولوی نذیراحمدسلامی اعلی سطح کےوفدکےساتھ پاکستان کے دورے پر ہیں،جن سےکل رات امتِ واحدہ پاکستان کےوفدنےملاقات کی۔وفد میں امتِ واحدہ پاکستان کےسربراہ علامہ محمدامین شہیدی،علامہ محمدعباس وزیری، مفتی سیدابراربخاری اورعلی نقی عمارشامل تھے۔ملاقات میں ایران کےسفیرسیدمحمدعلی حسینی اوراحسان خزاعی مشیربرائےایرانی ثقافت بھی موجودتھے۔
وفودکے اراکین نے اسلام کودرپیش بین الاقوامی چیلنجز،استعماری وطاغوتی طاقتوں کی اسلام کےخلاف ریشہ دوانیوں، وحدتِ امتِ اسلامی کودرپیش خطرات،فرقہ وارانہ جذبات کوابھارنےوالےعناصرکی روک تھام کےچیلنج،اسلام کے مختلف فرقوں کےدرمیان موجودمشترکات کےفروغ کی حکمتِ عملی،پاکستان وایران کی اقوام کےدرمیان اتحاد،وحدت اورمشترکات کےزیادہ سےزیادہ فروغ،افغانستان میں مغربی ممالک کی جارحیت کےنتیجہ میں پیش آنےوالی صورتحال اورافغان عوام کوموجودہ درپیش انتہائی مشکلات کےحل کےلئےدونوں ممالک کی حکومتوں اورعوام کےاقدامات پرتفصیلی گفتگوکی۔اس بات پراتفاق ہواکہ مسلم امہ کے اتحادکی راہ میں درپیش رکاوٹوں کودورکرنےکےلئےشعوری طورپرہمہ گیرجدوجہدکی ضرورت ہے، امریکی سُنیت اوربرطانوی شیعیت دونوں سےاسلام کوخطرہ ہےاورحقیقی اسلام کو بچانےکےلئےامریکیوں کی امدادپردنیابھرمیں سُنیت کےنام پرفرقہواریت پھیلانےوالےعناصراوربرطانیہ وایم آئی سکس کی مددسےشیعہ سُنی کولڑانےکی کوشش کرنےوالےعناصر کےسدِباب کےلئےاورامت کویہودونصاری کےایسےگماشتوں سےبچانےکےلئےمشترکہ جدوجہدکوتیزترہوناچاہیے۔ اگرہم پاکستان کومن حیث اسلامی جمہوریہ اوریہاں کےمسلمانوں کومحفوظ اورخطرات سےبچاناچاہتےہیں تواس کاراستہ اتحادووحدت کافروغ اورفرقہ واریت کی حوصلہ شکنی ہے۔جولوگ جانےانجانےمیں کسی بھی حساس موضوع کولےکرمسلم امہ کےدرمیان تفرقہ کاباعث بنتےہیں،وہ حقیقتااسلام کونقصان پہنچاتےہیں۔قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں ہماری سب سےپہلی ذمہ داری مختلف مکاتبِ فکرکےعلماءکوایک جگہ اکٹھاکرناہےعلماء،اہلِ علم ودانش،اہلِ فکروقلم اوراہلِ منبرجتنازیادہ آپس میں گفتگواورایک دوسرےکےدینی مراکزکادورہ کریں گے،اتنازیادہ محبتوں کوفروغ ملےگااورفرقہ پرستی کی حوصلہ شکنی ہوگی۔اس کےساتھ ساتھ تعصبات کی شدت میں بھی کمی آئےگی اوریہی چیزملک اورامتِ اسلام کی سلامتی کی ضامن اوردنیابھرمیں مسلم امہ کی سربلندی کاباعث ہے۔لہذاکوشش یہ ہونی چاہیےکہ دنیابھرمیں عمومااورپاکستان میں خصوصی طورپرمختلف مسالک کےدرمیان افہام وتفہیم،محبت اورمشترکات کےفروغ کےلئےعلمی،فکری،ثقافتی اورتہذیب وتمدن کےحوالہ سےوہ تمام ذرائع بروئےکارلائےجائیں جن سےفاصلوں کوسمیٹااورمعاشرہ میں رہنےوالوں کےقلوب کوایک دوسرےکےقریب لایاجاسکے۔اس بات پر بھی اتفاق ہواکہ وحدت واتحادکامطلب فرقوں اورمسالک کاخاتمہ نہیں،یاشیعہ کاسُنی اورسُنی کاشیعہ ہوجانانہیں۔بلکہ وحدت واتحادکامطلب سُنی اورشیعہ کااپنےاپنےمسلک پرقائم رہتےہوئےآپس میں مشترکات پراکٹھےہونااوراللہ،رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورقرآن کےدشمنوں کےمقابلہ میں یک زبان ہوناہے،جن کاخطرہ مسلم امہ اورمسلم ممالک کوزیادہ ہے۔امت کی وحدت واتحاد کایہ نظریہ ایک سیاسی نظریہ نہیں ہےبلکہ یہ قرآنی اورنبوی نظریہ ہے۔قرآن مجیدونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کانچوڑامت کےاختلافات کوکم سےکم اورمشترکات کوزیادہ سےزیادہ فروغ دیناہے۔
مجمع التقریب بین المذاہب کی اعلی شوری اورمجلس خبرگان کے رکن اہلسنت عالم ،مولوی نذیراحمدسلامی نےعالمِ اسلام کودرپیش خطرات اورمسلم اُمہ کےاندرموجوداستعداد،صلاحیتوں اوران کی طاقت پرتفصیلی گفتگوکی۔اراکینِ وفودنےاس بات پراتفاق کیاکہ امت کواکٹھاکرناایک دودن کاکام نہیں، یہ مسلسل عمل ہےجوسالہاسال پرمحیط ہےاوراس کے لئےسب سےاہم چیزدشمن کی ریشہ دوانیوں،سازشوں اورنت نئےہتھکنڈوں کوپہچاننا،ان کاسدِباب کرنااورمسلم اُمہ پر ہونےوالےہروارکاجواب دینےکےلئےپوری توانائی صرف کرناہے۔-
آپ کا تبصرہ